دارالعلوم دیوبند کا نیاز مندانہ سفر

(۱/۲)

 

از: مولانا عبدالرؤف غزنوی فاضل دارالعلوم دیوبند

استاذ: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

دارالعلوم دیوبندکاافتتاح بہ روزپنج شنبہ۱۵/محرم الحرام۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء مسجد چھتّہ دیوبند کے کھلے صحن میں انارکے ایک چھوٹے درخت کے نیچے نہایت سادگی کے ساتھ اہل اللہ کی ایک جماعت کے ذریعے عمل میں آیا،جس کا سرمایہ،اخلاص وخدمتِ دین اورتوکل علی اللہ تھا۔

اس ادارہ کے قیام کابنیادی مقصد اسلامی عقیدہ کاتحفظ،کتاب وسنت اورفقہ اسلامی کی تعلیم وترویج، بدعات وغیراسلامی رسومات کاخاتمہ، مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اوران میں دینی حمیّت واسلامی غیرت کا جذبہ بیدارکرناتھا۔بانیان کے اخلاص وتوکل علی اللہ کی برکت سے یہ چھوٹاساگمنام مدرسہ ترقی کی طرف گامزن ہوا اورکچھ ہی عرصہ کے بعد برصغیرکاسب سے بڑادینی ادارہ بن گیا،اس کی شہرت ومقبولیت کی آوازمشترکہ ہندوستان سے نکل کرافغانستان،بخاراوسمرقند کے پہاڑوں میں گونجنے لگی؛ بلکہ اس سے آگے عالمِ عرب کے ریگستانوں اورافریقہ کے جنگلات تک بھی جاپہنچی۔حسنِ نیت،اخلاص وللہیت اورتوکل علی اللہ کے کرشمے اسی طرح ہوا کرتے ہیں ۔

دارالعلوم دیوبندکاپہلاسفر

رواں پندرھویں صدی ہجری کے شروع میں جب راقم الحروف افغانستان وپاکستان کے سرحدی علاقوں کے دینی مراکزمین فنون کی کتابوں میں منہمک اورزیرِ تعلیم تھا، اس نے بعض مشفق اساتذہٴ کرام کی ترغیب اور والدین محترمین کی اجازت سے دارالعلوم دیوبندجانے کاارادہ کیا؛ تاکہ ایک ایسے سرچشمہٴ فیض وبرکت سے علمی پیاس بجھانے کاموقع ملے جس کے بعدکسی اور سرچشمہ کوتلاش کرنے کی کوئی خاص ضرورت باقی نہ رہے؛ چنانچہ بے سروسامانی کے باوجود عزم سفر کرلیا اور دیوبند پہنچ کر دارالعلوم دیوبند کے آخری درجہ دورہٴ حدیث میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ داخل ہوگیا۔ فالحمدللہ علی ذلک۔

بہرصورت! دورہٴ حدیث میں اپنے عظیم المرتبت اساتذہ کے پاس پڑھنے کاسلسلہ شروع ہوااورایک سال کے بعد فراغت ہوئی،امتحانِ سالانہ میں اللہ کی توفیق اوراساتذہٴ کرام کی دعاوٴں کی برکت سے اپنی جماعت میں اورپورے دارالعلوم کی سطح پربھی پہلی پوزیشن حاصل کی،اوراگلے سال کے لیے آسانی کے ساتھ شعبہٴ افتاء (تخصص فی الفقہ)میں داخلہ ہوا،اس شعبہ کے سالانہ امتحان میں بھی بحمداللّٰہ وتوفیقہ پہلی پوزیشن حاصل ہوئی۔

امامت وخطابت اورتدریس کی ذمہ داری

دورہٴ حدیث کے سال ہی احقرکودارالعلوم دیوبندکی مسجد(مسجدقدیم)کاامام وخطیب مقررکیا گیا اور فراغت کے بعداپنے اساتذہٴ کرام وبزرگوں کے حکم ومشورہ سے تدریس کے لیے درخواست دی؛چنانچہ دارالعلوم کے نظام کے مطابق اکابر کی ایک کمیٹی نے انٹرویولیاجس کے نتیجے میں احقرکا تقرربحیثیت مدرس عمل میں آیااورماہ ربیع الاول۱۴۰۳ھ کوباقاعدہ تدریس کاآغازہوا ۔

دارالعلوم دیوبند میں تقرری کے بعداحقرکو اپنے اساتذہٴ کرام سے استفادہ کا بہترین موقع میسرآیا۔

اساتذہٴ کرام کے نظام الاوقات اوران کے مراتب کی رعایت کرتاہوا،ان سے ملاقات کرنے اور ان سے تدریسی،تربیتی اورعملی میدان میں استفادہ کرنے کاایک نیاسلسلہ شروع کیا، حضرت الاستاذ، فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہی قدس سرہ سے اصلاحی تعلق کاسلسلہ بھی قائم ہوا اوران کی اصلاحی وعلمی مجلسوں میں حتی الامکان شریک ہونے کابھی اہتمام کیا،میرے تمام اساتذہٴ کرام کواللہ تعالیٰ بہترین صلہ عطافرمائے جنہوں نے ہرہرقدم پررہنمائی فرمائی اورکبھی بھی مجھے مایوس یامحروم نہیں ہونے دیا۔

امامت وخطابت،تعلیم وتدریس اور اساتذہٴ کرام کے زیرِسایہ رہ کر ان سے استفادہ کرنے کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا،ان دس سالوں میں دارالعلوم دیوبنداوراس کی پُرکیف علمی وعملی فضا سے محبت وتعلق اتنامضبوط ہوگیاکہ میرے تصوروخیال میں بھی نہیں تھاکہ اپنی زندگی میں کبھی اس بابرکت ماحول سے جداہوں گا؛لیکن تقدیرِ خداوندی کچھ اورتھی،۱۲/شعبان ۱۴۱۲ھ کوحضرت والدماجدکا مضافاتِ کوئٹہ بلوچستان میں انتقال ہوا(رحمہ اللّٰہ تعالیٰ)اوروالدہ محترمہ (بَارَکَ اللہُ فِی صِحَّتِھَا وَعَافِیَّتِھَا وَحَیَاتِھَا)نے مجھے حکم دیاکہ اپنی والدہ،بھائیوں اوربہنوں کو سنبھالنے کے لیے اب تمہاراپاکستان آنا ناگزیرہوگیاہے،لہٰذا اللہ پرتوکل کرکے مستقل طور پر واپس پاکستان آجاوٴ!

دارالعلوم دیوبندسے فراق کاغم

دارالعلوم دیوبندکی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ اگرکوئی طالب علم صرف ایک ہی سال وہاں پڑھ کرفارغ التحصیل ہوجاتاہے اوراگلے سال اس کو جاناہوتاہے تو وہ غمِ فراق میں تڑپتا رہتا ہے، اوراگرکسی کو کچھ زیادہ عرصہ دارالعلوم میں پڑھنے کاموقع مل جاتاہے اوردارالعلوم کی محبت اس کی رگ وپے میں پیوست ہوجاتی ہے اور پھراس سے جدائی کاوقت آجاتاہے تواس کی بے تابی وپریشانی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھنے والوں کو بھی غم میں مبتلاکردیتی ہے۔

کراچی میں قیام اوردارالعلوم دیوبندسے مستقل رابطہ

بہرکیف! میں رمضان المبارک کے آخری دن ۱۴۱۲ھ کودارالعلوم دیوبندسے قلبِ غمگین کے ساتھ پاکستان کے لیے روانہ ہوا، اوروالدہ محترمہ اوربھائیوں کے مشورہ سے کراچی میں قیام کا فیصلہ کیاجوتادمِ تحریرجاری ہے،اللہ تعالیٰ نے کراچی میں میری استعداد وصلاحیت سے بڑھ کر عزت وکامیابی بخشی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ سیدمحمدیوسف بنوری ٹاوٴن (جوپاکستان کاایک مشہور ومعروف دینی ادارہ ہے)میں تدریسِ حدیث اورمجلہ”البیّنات“ عربی کی ادارت کاموقع ملا، نیز جامع مسجدطوبیٰ ڈیفنس (جوکہ پورے پاکستان کی سطح پر ایک مشہورومعروف مسجدہے) میں امامت وخطابت کے ذریعہ عام مسلمانوں کی دینی خدمت کا موقع میسرآیا،اس کے علاوہ اہلِ علم حضرات نے بے حد شفقت وہمت افزائی کامعاملہ فرمایااورطلبہٴ عزیز کے درمیان بھی اللہ تعالیٰ نے میری تمام نااہلی کے باوجود مقبولیت کی دولت سے نوازا۔سچی بات یہ ہے کہ ان تمام نعمتوں کے حصول میں بنیادی کرداردارالعلوم دیوبندکی نسبت، اساتذہٴ کرام اور والدہ محترمہ کی دعاوٴں نے ادا کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کراچی میں رہ کر اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبند اوروہاں کے مشایخ واساتذہٴ کرام سے ظاہری جدائی کے باوجود رابطہ منقطع نہیں ہوا،ان کے ذکرخیراورایمان افروز واقعات کا تذکرہ اپنے درس وتدریس اوربیانات ومجالس کے دوران برابرجاری رہا،اورخط وکتابت وٹیلی فون کے ذریعہ بھی وقتاً فوقتاً رابطہ قائم رہااورمشورہ طلب امورمیں ہمیشہ مشورہ کرتارہا۔

اپنے مشایخ واساتذہٴ کرام کی زیارت کے چندمواقع

دارالعلوم دیوبندسے فراق کے بعد اس کی زیارت کے اسباب توپیدانہیں ہوئے؛البتہ دارالعلوم کے مشایخ واساتذہٴ کرام سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کے کچھ مواقع دارالعلوم سے باہرملتے رہے جن سے دردِفراق کووقتی طورپرکچھ ہلکاہونے کاسہاراملتارہا؛چنانچہ ۲۶/رمضان المبارک ۱۴۱۶ھ کواپنے استاذ ومرشد فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی۱۴۱۷ھ)قدس سرہ کی خدمت میں ”ڈھاکہ“بنگلہ دیش حاضری ہوئی، جہاں حضرت اپنے متعلقین کے ساتھ اعتکاف فرمارہے تھے،احقرکوبھی چندہی دن اعتکاف اورحضرت فقیہ الامت قدس سرہ کی صحبت میں رہنے کاموقع ملا اورمسجدچھتہ دارالعلوم دیوبندکی یادیں تازہ ہوگئیں،کس کومعلوم تھاکہ یہ حضرت فقیہ الامت کی زندگی کاآخری رمضان ہے؛لیکن وہی ہواجواللہ نے مقدر فرمایاتھا،ماہ ربیع الثانی ۱۴۱۷ھ کوجنوبی افریقا میں سفرکے دوران حضرت کاوصال ہوا،رحمہ اللّٰہ رحمةً واسعةً۔

اسی طرح”ڈیڑھ سوسالہ خدماتِ دارالعلوم دیوبند“کے عنوان سے ایک سہ روزہ کانفرنس بتاریخ۱۴،۱۵،۱۶/محرم الحرام ۱۴۲۲ھ مطابق۹،۱۰،۱۱/اپریل۲۰۰۱ء جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی طرف سے پشاور میں منعقد کی گئی تھی، جس میں حضرت مولانامرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب صدر جمعیت علمائے ہندورکنِ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اوردارالعلوم کے بڑے اساتذہٴ کرام کو خصوصی طورپرشرکت کی دعوت دی گئی تھی، اس موقع پرحضرت مہتمم صاحب قدس سرہ،حضرت مولاناسیداسعد مدنی صاحب برداللہ مضجعہ،نیز اکابر اساتذئہ دارالعلوم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

ماہِ ذی الحجہ ۱۴۳۳ھ کوحجازِ مقدس میں حج کے موقع پربھی حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب زیدمجدہم،ان کے چھوٹے بھائی جناب مولاناسیداسجدمدنی صاحب زیدلطفہم،حضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبندمدظلہم،حضرت مولاناحبیب الرحمن اعظمی صاحب استاذ حدیث ومدیر”ماہنامہ دارالعلوم دیوبند“زیدمجدہم اورمحترم دوست جناب مولاناعبدالخالق سنبھلی استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبندحفظہ اللہ سے ملاقات کاشرف حاصل ہوا اور وہاں دارالعلوم دیوبندکی یادیں تازہ ہوگئیں۔

بہرصورت! دارالعلوم دیوبندکوخیربادکہنے کے بعدتقریباً۲۳/سال بیت گئے اوروہاں پر جانے کی کوئی صورت کوشش کے باوجودمیسرنہ آسکی؛ البتہ جیساکہ اوپرعرض کیاجاچکاہے رابطہ کاسلسلہ اور دارالعلوم سے دور مختلف مقامات پردارالعلوم کے مشایخ واساتذہ سے ملاقاتوں کاسلسلہ بدستورقائم رہا،اوریہ دعاکرتا اور کراتارہاکہ اللہ تعالیٰ وہاں پرحاضری کی کوئی صورت پیدافرمادیں۔

حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب کی طرف سے دیوبندحاضری کی دعوت

دارالعلوم دیوبندکی زیارت کے لیے بے تابی میں دن بہ دن اضافہ ہورہاتھا؛یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دل کی آوازسن لی اورحضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب دامت برکاتہم صدر جمعیة علمائے ہنداوراستاذِحدیث دارالعلوم دیوبندکی طرف سے ”عظمتِ صحابہ کانفرنس“ (جو ۹/۵/ ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۱/۳/۲۰۱۴ء کودارالعلوم دیوبند میں منعقدہونے والی تھی) میں شرکت کادعوت نامہ میرے مخلص دوست جناب مولانامفتی مظہرشاہ صاحب بہاولپوری زیدلطفہم کے توسط سے موصول ہوا،دعوت نامہ میں پاکستان سے تقریباً پچیس حضرات مدعوتھے، جن میں احقرکانام بھی شامل تھا؛ لیکن انڈین سفارت خانہ نے نامعلوم وجوہ کی بنیادپرویزادینے میں دیرلگادی اور کانفرنس کی مقررہ تاریخ گذرگئی، لہٰذا”عظمتِ صحابہ کانفرنس“میں شرکت کاموقع ہاتھ سے نکل گیا؛ البتہ ویزا کچھ تاخیرکے ساتھ سب کومل گیا،اورحضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب مدظلہم نے پیغام بھیجاکہ چونکہ ویزالگ گیاہے؛ لہٰذا آپ حضرات مذکورہ کانفرنس میں نہ سہی،دارالعلوم دیوبند کی زیارت کے لیے اپنی صوابدیدکے مطابق تشریف لائیں اورآپ حضرات میرے مہمان ہوں گے۔

حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب دامت برکاتہم کے اس پیغام کے بعد دیگر مدعو حضرات نے تو ماہِ اپریل کے شروع میں سفرکاارادہ وانتظام فرمایا؛لیکن احقر نے بعض وجوہات کی بنا پر اپنا سفر ایک ماہ کے لیے موٴخر کردیا۔

ماہِ رجب میں اسباق کااختتام اوردیوبندکاسفر

اور ۴/رجب ۱۴۳۵ھ مطابق ۴/مئی ۲۰۱۴ء بروزاتواراپنے اسباق ختم کراکر دعاکرائی اوراگلے دن ۵/رجب ۱۴۳۵ھ مطابق۵/مئی۲۰۱۴ء بروزپیربذریعہ پی.آئی.اے کراچی سے پاکستانی ٹائم کے مطابق صبح آٹھ بج کر پچپن منٹ پردہلی کے لیے روانہ ہوا،تقریباً پونے دوگھنٹے میں ہندوستانی ٹائم کے مطابق گیارہ بج کردس منٹ پردہلی ایئرپورٹ پہنچ گیا،حضرت مولانا سید ارشدمدنی صاحب مدظلہم کو اپنے پروگرام کی پیشگی اطلاع کردی تھی جس پر حضرت نے ”مرحبا“ کہہ کرخوشی کااظہارفرمایاتھااوریہ بھی فرمایاکہ مذکورہ تاریخ کو دہلی ایئرپورٹ پرآپ کااستقبال کیاجائے گا۔

دہلی ایئرپورٹ پہنچ کر مختصروقت میں جب قانونی کارروائی سے فارغ ہوکر باہرآیاتوجناب مولانا محمد سراج صاحب قاسمی ذمہ داردفترجمعیت علمائے ہند دہلی‘ حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب زیدمجدہم کے حکم سے حضرت ہی کی گاڑی اورڈرائیورکے ساتھ انتظارکرہے تھے۔

ایئرپورٹ سے مولانامحمدسراج صاحب کے ساتھ دفترِ جمعیت پہنچا،مولانافضل الرحمن صاحب سیکریٹری جمعیت نے بہت اکرام کامعاملہ کیا،ظہرکی نمازکے بعدکھاناکھاکراپنی عادت کے مطابق تھوڑی دیرکے لیے قیلولہ کرنے کی غرض سے لیٹا؛لیکن دیوبندکی محبت وتڑپ میں سونے کاسوال ہی پیدانہیں ہورہاتھا اوربقول شاعر:

منزل یارچوں شودنزدیک           آتشِ شوق تیزترگردد

محبت ووصال کے جذبات میں اضافہ ہورہاتھا،لہٰذا اٹھ کرمولانامحمدسراج صاحب سے عرض کیاکہ دیوبندچلناہے،موصوف کو اللہ تعالیٰ جزائے خیرعطافرمائے فوراً تیارہوئے اور ڈرائیور محمدیاسین صاحب، ان کے ایک ساتھی اوراحقر کوساتھ لے کردیوبندروانہ ہوئے،عصرکے وقت دیوبندکے حدودمیں داخل ہوگئے،اوریہ خیال کرکے کہ دارالعلوم پہنچتے پہنچتے کہیں عصر کی نمازمیں تاخیرنہ ہوجائے؛ اس لیے نمازپڑھنے کے لیے مین روڈ کے کنارہ پرواقع ایک مدرسہ ”جامعہ زکریا“ کی مسجدکے ساتھ رُک گئے،وضوکرکے احقرجیسے ہی مسجدمیں داخل ہواتووہاں پر موجود مدرسہ کے مہتمم صاحب نے دیکھتے ہی پہچان لیااوربے حداحترام سے پیش آئے اور فرمایاکہ جب آپ دارالعلوم میں بحیثیت مدرس وامام فرائض انجام دے رہے تھے اس زمانہ میں، میں پڑھتاتھا۔

دارالعلوم کے قریب ”محلہ خانقاہ“ میں جب داخل ہوئے توطلبہٴ عزیزحسبِ معمول بعدالعصرچہل قدمی کے لیے گلیوں سے گزررہے تھے اورہرملنے والے کوسلام کرنے کی کوشش کرتے تھے،چہروں پرنورووقار،چلنے میں سادگی اورنگاہوں کونیچے کیے ہوئے چل رہے تھے، ایسامحسوس ہورہاتھاکہ انسانوں کی شکل میں فرشتے چل رہے ہیں،مجھے ان کو دیکھ کر۲۳/سال پہلے کاوہ دوریاد آرہاتھا، جب مجھ جیساسیاہ کار بھی بعدالعصر اسی سرزمین پر چہل قدمی کے لیے نکلاکرتاتھا۔

تھوڑی دیرکے بعدہم حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب زیدمجدہم کے مکان پرپہنچ گئے،رفیقِ سفر مولانامحمدسراج صاحب کاچونکہ حضرت والاسے برابربذریعہٴ فون رابطہ قائم تھا، اس لیے حضرت کویہ معلوم تھاکہ ہم پہنچنے والے ہیں اوروہ انتظارمیں تھے،جیسے ہی ہم ان کے مکان میں پہنچے تووہ بے حدشفقت ومحبت سے ملے اورسبزچائے-جوبالعموم عصرکے بعدان کی مجلس میں چلتی رہتی ہے- پیش فرمائی،اورحال واحوال پوچھنے کے بعدفرمایاکہ آپ کاقیام دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ہوگا؛ البتہ جب تک آپ کاقیام ہوگا صبح کاناشتہ اوردونوں وقت کاکھانامیرے یہاں ہوگا،ہاں اگرکسی نے دعوت کی اورآپ نے قبول کرلی تووہ آپ کی مرضی پرموقوف ہے اورساتھ ساتھ یہ بھی فرمایاکہ چونکہ میرے کچھ پروگرام طے شدہ ہیں تومیں اگرکسی دن دیوبندمیں نہ بھی رہاتب بھی یہ گھرآپ کاہے،میرے صاحبزادے (مولاناسیدامجدمدنی فاضل دارالعلوم دیوبند حفظہ اللہ ) آپ سے برابررابطہ میں رہیں گے۔

مغرب کی نمازسے پہلے میراسامان کمرہ نمبر:۱۱مہمان خانہ دارالعلوم دیوبندمنتقل کیاگیا،کمرہ کافی کشادہ،آرام دہ اورایئرکنڈیشنڈ تھا،سامان رکھ کرکمرہ کی چابی میرے حوالہ کی گئی،اورمیں دارالعلوم کی مسجدقدیم میں مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے جیسے ہی مہمان خانہ سے نکلا اسی وقت دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب سے ملاقات ہوئی،موصوف نے بہت ہی خوشی اورمحبت کااظہارفرمایا،مغرب کی نمازمسجدقدیم میں (جس کی امامت وخطابت کی ذمہ داری تقریباً دس سال تک احقرکے سپردرہی تھی) اداکی، مغرب کے بعددارالعلوم کے احاطہ میں گھومتاہواپرانی یادیں تازہ کرتارہا۔

طویل فراق کے بعداپنی مادرعلمی کے احاطہ میں گھومتاہواباربار یہ تسلی حاصل کرنے کی کوشش کررہاتھا کہ آج میں حقیقتاً اپنی روحانی ماں کی آغوشِ رحمت میں پہنچ چکاہوں،اوریہ کوئی خواب یاصرف تصورہی نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میرے طویل فراق کو وصال سے تبدیل کردیاہے۔

آن پریشانی شبہائے درازوغمِ دل              ہمہ درسایہٴ گیسوئی نگارآخرشد

جامع مسجدرشیدکاتذکرہ

احقرکواچھی طرح یادہے کہ بروزجمعہ ۲۳/۷/۱۴۰۶ھ مطابق ۴/۴/۱۹۸۶ئاس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس میں دارالعلوم دیوبندکے اس وقت کے مہتمم حضرت مولانامرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ، بڑے اساتذہ بالخصوص حضرت الاستاذ مرشدی مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اوربعض معززمہمان جیسے حضرت حکیم عبدالرشیدمحمودصاحب رحمہ اللہ (عرف حکیم ننومیاں) اور حضرت مولانامحمدعمرصاحب پالن پوری رحمہ اللہ وغیرہ نے شرکت کی تھی۔

جب سنگِ بنیادرکھاگیا اور اس کے بعدبنیادوں کی کھدائی اورباقاعدہ تعمیری کام کا آغاز ہوا تو حضرت مہتمم صاحب رحمہ اللہ نے احقرپراعتمادکرتے ہوئے اس مسجدکی نگرانی اورتعمیری سامان کی دیکھ بھال ایک اضافی کام کے طورپراحقرکے سپردکرناچاہی،احقرنے کافی معذرت بھی کی اور عر ض کیاکہ مجھے تدریس کے علاوہ اس جیسے کاموں کانہ توکوئی تجربہ ہے اورنہ ہی دلچسپی؛لیکن انھوں نے اصرارفرماتے ہوئے کہاکہ یہ دارالعلوم کی خدمت ہے اورآپ پراعتمادہے، آپ اس کوقبول کیجیے، اورساتھ ساتھ دارالعلوم کے لیٹرپیڈ پراحقر کے نام ایک تحریرارسال فرمادی جس میں سلام کے بعدمندرجہ ذیل مضمون درج تھا:

”الحمدللہ تعمیرمسجددارالعلوم کاکام شروع ہوگیاہے۔کام منظورشدہ ٹھیکیداران کے ذریعہ کرایا جارہاہے ۔تکنیکی نگرانی انجینئر اورآرکٹیکٹ صاحبان فرمارہے ہیں۔مسجدکی تعمیرکے سلسلہ میں عمارتی سامان ادارے کی جانب سے فراہم کیاجارہاہے۔اس سلسلہ میں نگرانی کے فرائض آپ کو تفویض کیے جاتے ہیں۔موقع پرجوسامان آئے اس کااندراج رجسٹروں میں باقاعدہ طورپراپنی نگرانی میں کراکرآپ بلوں پرتصدیق فرمائیں۔عمارتی سامان کی کوالٹی،مقداراورتعدادکی طرف خصوصی توجہ فرمائیں۔اس امرکی جانب بھی توجہ فرمائیں کہ کوئی سامان کسی بھی صورت میں خورد برد نہ ہوسکے۔شعبہ جات متعلقہ اس سلسلہ میں آپ سے مکمل تعاون کریں گے۔نقولات شعبہ جات محاسبی،دارالاقامہ،اورتعمیرات کوبغرض اطلاع اورضروری کارروائی ارسال ہیں۔

نوٹ: اعظمی منزل اوردیگرزیرتعمیرکاموں کی نگرانی بھی آپ کے سپرد کی جاتی ہے“۔

مرغوب الرحمن

مہتمم دارالعلوم دیوبند

۴/۸/۱۴۰۷ء

اس تحریرکے بعدمعذرت کاراستہ بندہوگیااوراحقرنے حسب الحکم نگرانی شروع کی؛ لیکن چندہی دن کے بعد اندازہ ہواکہ یہ کام میرے بس کانہیں،مطالعہ میں دشواری ہورہی ہے اور اسباق کی تیاری میں فرق محسوس ہورہاہے،تومیں نے حضرت مہتمم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر بڑی لجاجت کے ساتھ عرض کیاکہ حضرت!آپ کے حکم کے مطابق میں نے یہ کام شروع توکردیا؛لیکن اب مجھے پورااندازہ ہوگیاکہ یہ میرے بس سے باہرہے،لہٰذابراہِ کرم اس کام سے میری معذرت منظورفرمالیں،اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، انھوں نے میری معذرت منظورفرماکراس کام کوجناب مولاناعبدالخالق صاحب مدراسی (موجودہ نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند)کے سپردکردیا، جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیت،مسلسل محنت اورذاتی دلچسپی کی بنیادپر بحسن وخوبی پایہٴ تکمیل تک پہنچادیا۔

کچھ تذکرہ حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب کا

حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب مدظلہم العالی شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدصاحب مدنی قدس سرہ کے صاحبزادے،دارالعلوم دیوبندکے استاذِحدیث اورجمعیت علمائے ہندکے صدرہیں،حضرت والاسے احقرکوپڑھنے کی سعادت میسرنہ ہوسکی؛اس لیے کہ جس وقت حضرت والاکومدرسہ شاہی مرادآبادسے استاذِحدیث کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبندبلایاگیا، اس وقت احقر دارالعلوم سے فارغ ہوکرمدرس ہوگیاتھا؛ البتہ حضرت کوقریب سے دیکھنے کاموقع خوب ملا،ان کی عظمت وہمت،تقویٰ وطہارت،سخاوت وتواضع، ذہانت وذکاوت،شجاعت وبلنداخلاقی اوربااثرشخصیت کاہمیشہ معترف ومعتقدرہا،اوراستاد ہی کی طرح ان کا احترام میرے دل میں جاگزیں رہا۔

حضرت والا نے دارالعلوم میں استاذِحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نظامتِ تعلیمات کاعہدہ بھی ایک عرصہ تک سنبھالا،اورتعلیم وتربیت کی بہتری کے لیے موٴثراقدامات کیے،فجرکی نمازکے لیے اذان کے بعدہی ٹارچ لے کرپورے دارالعلوم کے طلبہ کوجگاناآپ کامعمول تھا؛ چنانچہ نمازشروع ہونے سے پہلے پوری مسجدطلبہ سے بھرجاتی تھی،علمی قابلیت کے ثبوت کے لیے دارالعلوم دیوبندمیں حدیث پڑھانااورنظامتِ تعلیمات کاعہدہ سنبھالناہی کافی ہے،اس کے علاوہ علّامہ بدرالدین محمودبن احمدعینی(متوفّٰی۸۵۵ھ )رحمہ اللہ کی ۲۳ جلدوں پر مشتمل مایہٴ نازتصنیف ”نُخَبُ الأفکارِفي تَنْقِیْحِ مَبَانِي الأخبار“جوامام ابوجعفراحمدبن محمدطحاوی (متوفی۳۲۱ھ)کی مشہورکتاب”شرح معاني الآثار“کی شرح ہے اورحضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب مدظلہم کی محنت وتحقیق کے بعدزیورِ طبع سے آراستہ ہوکراہلِ علم کے لیے ایک بہترین علمی تحفہ ثابت ہوئی تویہ حضرت والاکی اعلیٰ قابلیت وصلاحیت کاشاہدِعدل ہے۔

اس رواں سفرمیں بھی احقر نے ایک سے زائدمرتبہ دیکھاکہ حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب صبح ترمذی شریف کاسبق پڑھاکرجمعیت علمائے ہندکی طرف سے مختلف مقامات پرطے شدہ پروگراموں میں شرکت کرکے تقریرفرماتے ہیں،رات کودہلی پہنچ کرنمازوکھانے سے فارغ ہوکر کچھ آرام کرتے ہیں،رات کے آخری حصہ میں اٹھ کرتہجدکااپنا مستقل معمول پوراکرتے ہیں اور پھردہلی سے روانہ ہوکر صبح دیوبندپہنچ کر اپناسبق پڑھاتے ہیں،ایک اورخاص بات جواحقر نے واضح طور پر محسوس کی وہ یہ تھی کہ بڑھاپے اوراتنی مصروفیات کے باوجودنہ توان کے چہرہ پرتھکاوٹ کے آثار محسوس ہوتے تھے اورنہ ہی اندازِ گفتگومیں کوئی فرق؛بلکہ ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ ہرایک سے ملنااورہرملنے والے سے نہایت اطمینان واپنائیت کے ساتھ گفتگواورمزاج پرسی کا سلسلہ برقرار رہتا تھا۔ اتنی مصروفیات وبڑھاپے کے باوجوداپنے اعصاب وحواس پراتناکنٹرول اوراپنی زبان کی شیرینی ونرمی کواس حدتک قابومیں رکھناکم ازکم احقر نے تواپنی زندگی میں نہیں دیکھاہے،اورحضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے علاوہ اپنے اکابرین میں سے کسی سے متعلق سنابھی نہیں ہے۔

(باقی آئندہ)

$ $ $

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9 ، جلد: 99 ‏، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق  ستمبر 2015ء